ProZ.com translation contests »
32nd Translation Contest: "Movie night" » English to Urdu » Entry by Aiman Riaz


Source text in English

Translation by Aiman Riaz (#36956) — Winner

To say that I was compelled by Parasite from start to finish is an understatement; its filming style with tracking shots are enthralling. Having watched several Korean films during the London Korean Film Festival, I was familiar with the usual genres employed in such films but Parasite seemed to defy them all! Parasite is comedic, in a quirky way, it is also a thriller, straddles class divisions and also depicts a family tale amongst other genres and is therefore likely to appeal to all ages.

Parasite truly deserves to be watched in a cinema to appreciate its nuances and the stylish cinematography. As a summary, to avoid spoilers, Parasite tells the tale of the interaction between the Park family and the Kim’s, an unemployed family, whose contrasting worlds collide with long lasting consequences.

[...]Bong Joon-Ho manages to pique the audience’s interest with brightly lit shots coupled with the effective use of indoor space, and it is surprising to realise, after the film’s 2 hour 12 minute length, that most of the scenes occur within the Park family’s home. The mundane elements of domesticity are displayed with an intriguing perspective showcasing Bong Joon-Ho’s flair. It is a slow burner but you will revel in its beauty and ingenuity as Parasite convinces that it operates solely on one level but it is in fact multi-layered and depicts social realism with empathy and pathos.

The cast are beguiling to watch, every facial movement and action is accentuated, even the mere act of walking up or down stairs can convey hidden meaning, which the camera fragments. Levels of unease are also created by virtue of that effective use of space with unusual camera angles and dramatic weather conditions ratcheting up that sensation. There is a surreal nature to Parasite, which its score emphasises, and furthermore the film adopts elements of the absurd devised in such an ingenious way which is truly cinematic magic. Parasite’s apparent eeriness will certainly keep you riveted and would not feel alien to the Twilight Zone school of filmmaking.

The actors are very impressive and add breadth to their roles creating relatability whilst seeming effortlessly cool. When Ki-Woo and Ki-Jeong Kim were working within the Park family home as private tutors they certainly epitomised this level of nonchalant, understated authority creating an aura of mysticism with the unspoken, almost mythical, tutoring techniques employed. Quite simply, the actors Park So-Dam and Choi Woo-Sik, as Ki-Woo and Ki-Jeong, are compelling to watch in the different directions that Parasite follows and they carry these performances seamlessly thereby inviting the audience to be on their side.

[...]Parasite is a remarkable piece of extremely skilful filmmaking, it is simply a must see film, and so I am looking forward to re-watching the film on its UK general release date.
یہ کہنا کافی نہیں کہ آغاز سے لے کر اختتام تک، میں پیراسائیٹ (Parasite) کی گرویدا بنی رہی؛ ٹریکنگ شاٹس کے ساتھ جس انداز سے اِسے فلمایا گیا ہے، وہ مسحور کُن ہے۔ لندن کورئین فلم فیسٹیول کے دوران کتنی ہی کوریائی فلمیں نظر سے گزریں، اور میں اس طرز کی فلموں میں اپنائے جانے والے جن رنگ و آہنگ سے واقف ہوں، پیراسائیٹ ان سبھی سے ذرا ہٹ کر معلوم ہوتی ہے! ایک نرالے طرزِ مزاح پر مبنی پیراسائیٹ، سنسنی خیز بھی ہے، طبقاتی اونچ نیچ کو نمایاں کرتی ہے تو دیگر خاصیتوں کے علاوہ یہ ایک خاندان کی داستان بھی بیان کرتی ہے اور اسی سبب، ممکنہ طور پر یہ ہر طبقۂ عمر کے معیار پر پورا اُتر سکتی ہے۔

پیراسائیٹ واقعی میں سینیما گھروں کی زینت بننے کے لائق ہے تاکہ اس کے متنوع پہلوؤں اور خوبصورت فلم بندی کا حق ادا ہو سکے۔ مزہ کرکرا ہونے سے بچانے کی خاطر، قصہ مختصر یہ کہ، پیراسائیٹ کی کہانی، پارک (Park) خاندان کی، کم (Kim) نامی، ایک بےروزگار خاندان سے ہونے والی ایک ملاقات، اور دونوں کے حالات کے میل نہ کھانے کے سبب مرتب ہونے والے دیرپا اثرات کے گرد گھومتی ہے۔

[...]بوں جُون ہو (Bong Joon-Ho) اندرونی مقام کے موثر استعمال کے ساتھ کمال کی روشنیوں میں فلمائے گئے شاٹس کی مدد سے، ناظرین کی توجہ پانے میں کامیاب رہے ہیں، اور 2 گھنٹے 12 منٹ کے دورانیے پر مشتمل فلم دیکھنے کے بعد، یہ احساس ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا ہے کہ زیادہ تر سین پارک فیملی کے گھر کے اندر ہی فلمائے گئے۔ خانگیت کے عام عناصر کو جس پُرکشش انداز میں پیش کیا گیا ہے اس سے بوں جُون ہو کے انداز کی وسعت چھلکتی ہے۔ اس فلم کے مزاج میں ایک دھیما پن ہے، تاہم، آپ کو اس کی خوبصورتی اور اچھوتے پن کا احساس تب ہو گا جب پیراسائیٹ کے محض یک سطحی ہونے کے دعوے کے برعکس آپ اسے تہ در تہ کھُلتا اور احساس اور انہونیوں کی مدد سے سماجی حقیقتوں کو آشکار کرتا ہوا دیکھیں گے۔

اس کی کاسٹ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے، چہرے کے ایک ایک تاثر اور ہر ہر حرکت میں ایک پیغام چھپا ہے، حتیٰ کہ سیڑھیاں چڑھنے، اترنے جیسی غیر اہم حرکات کے پیچھے بھی محرکات ہو سکتے ہیں، جنہیں کیمرے کی آنکھ سے نہایت انفرادیت کے ساتھ اجاگر کیا گیا ہے۔ کیمرے کے غیرمعمولی زاویوں اور یکایک بدلتی موسمی صورتحالوں کے ساتھ جگہ کے باصلاحیت استعمال کی مدد سے، بےچینی کی حدوں کو بھی نہایت تخلیقی انداز سے دِکھایا گیا ہے، جس کی بدولت یہ احساس دوچند ہو جاتا ہے۔ پیراسائیٹ اپنی ہی نوعیت کی ایک فلم ہے، جیسا کہ اس کے اسکور کو دیکھ کر ہی اندازہ ہو رہا ہے، اور مزید یہ کہ فلم میں خام عناصر کا بھی اس پُختگی سے استعمال کیا گیا ہے کہ یہ فلم بندی کا ایک کرشمہ معلوم ہوتا ہے۔ پیراسائیٹ کی ظاہری پراسراریت کی بدولت آپ یقیناً توجہ ہٹا نہیں پائیں گے اور خود کو Twilight Zone اسکول آف فلم میکنگ کا ہی حصہ پائیں گے۔

پائے کے اداکاروں نے اپنے کرداروں میں بلاتردد انداز سے وابستگی پیدا کرتے ہوئے گویا جان ہی ڈال دی ہے۔ جب کیی وُو (Ki-Woo) اور کیی جونگ کِم (Ki-Jeong Kim) پارک فیملی کے گھر کے اندر بطور نجی معلمین کام کر رہے تھے تو انہوں نے اطمینان کے اس درجے، مخفی اختیار کو بطریقِ احسن پیش کرتے ہوئے ان کہی، اور تقریباً ماورائی، معلِّمانہ تکانیک استعمال کر کے بلاشبہ ایک سحر سا قائم کر دیا۔ کیی وُو اور کیی جونگ کِم ہی کی طرح، نہایت آسانی سے، اداکار پارک سُو ڈیم (Park So-Dam) اور چواَے وُو سِک (Choi Woo-Sik) کی اداکاری کی بدولت پیراسائیٹ کی کہانی میں آنے والے موڑ دیکھے بنا رہا نہیں جا سکتا، اور انہوں نے اس قدر مہارت سے اداکاری کے جوہر دِکھائے کہ گویا ناظرین کا دل ہی جیت لیا۔

[...]پیراسائیٹ نہایت ماہرانہ طرز کی فلم بندی کا ایک قابلِ تعریف شاہکار ہے، یہ ایک دیکھنے لائق فلم ہے، اور اسی لئے یہ بات تو طے ہے، کہ میں اسے یو کے (UK) میں عوامی سطح پر ریلیز ہونے کے موقع پر دوبارہ دیکھنا چاہوں گی۔


Discuss this entry